The Messenger Of Allah ﷺ said: “Whoever dies without an Imam will die a death of Jahlliyyah” (Musnad Ahmad)

Have a Question?

If you are looking for a specific article search below!

“Maulana” Ashraf Ali Thanwi’s plagiarism of Hazrat Mirza Ghulam Ahmad(AS)

Introduction

Maulvi Ashraf Ali Thanwi holds the position of Hakeem-ul-Ummat, Physician of the Ummah, among Deobandis. What is utterly shocking is that Maulana Ashraf Ali Thanwi copied Maulvi Fazl Khan Changawi, Maulvi Noor-ud-Deen(RA), and Hazrat Mirza Ghulam Ahmad(AS). Maulvi Fazl Khan Changwi was an Ahmadi Scholar who wrote Asrar-e-Shariat spanning two volumes and multiple parts of it have quotes of Hazrat Hakeem-ul-Ummat Noor-ud-Deen Bhervi(RA) as well as the Promised Messiah(AS) but when these quotes are taken they are given with citation such as “(Noor)” for Noor-ud-Deen(RA). However Ashraf Ali Thanwi “Ahkam-e-Islam Aql Ki Nazar mein” is full of plagiarism of Maulvi Fazl Khan Changawi’s book as well as the books of the Promised messiah(AS). This is extremely problematic as Ashraf Ali Thanwi takfired Hazrat Mirza Ghulam Ahmad(AS). The aim of this article is to showcase several examples of Ashraf Ali Thanwi copying from Hazrat Mirza Ghulam Ahmad(AS) word for word spanning multiple pages but yet giving no indication he took it from Masih-e-Maud(AS), however, there are many more instances of where Ashraf Thanwi plagiarized. The Deobandis have no choice but to admit to the greatness of the writings of Hazrat Mirza Ghulam Ahmad(AS) and admit that their wajib-ul-taqleed Imam plagiarized from someone they consider a nonmuslim.

The Books that Ashraf Ali Thanwi plagiarized from

Hazrat Mirza Ghulam Ahmad(AS) books/texts that Thanwi plagiarized from:

  1. Philosophy of the Teachings of Islam: Originally an address during a conference on December 26th, 1896, then published in 1905
  2. Barakatud Dua  : Original Urdu text first published in 1893
  3. Naseem e Dawat: First Urdu Edition published in 1903
  4. Arya Dharam: First published in Urdu in 1895
  5. Noah’s Ark: First Urdu Edition published in 1902
  6. Al-Hakam January 23, 1899 – Official Ahmadiyya Muslim Jamaat Newspaper

Maulvi Fazal Khan Changawi, an Ahmadi Scholar, began writing his book(Asrar-e-Shariat) in 1909 and his book was published in 1910. In this book, he quoted many statements from the books of Mirza Ghulam Ahmad AS, Maulana Noorudeen RA, Maulawi Muhammad Ali, and more with citations.

The plagiarized filled book of Ashraf Ali Thanvi is called Ahkam-e-Islam Aqal Ki Nazar Main. Written in 1334 AH (1915), and republished in the computerized format in 2009.

Thanwi’s Plagirism of Hazrat Mirza Ghulam Ahmad(AS)’s writings

Plagiarism Instance # 1: The Philosophy of the Teachings of Islam Page 338

Original:

اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانون قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر پلید ہی ہو کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذاؤں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہے۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بد کا اثر بھی بد ہی پڑے گا جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوئی کو بڑھاتا ہے


The Philosophy of the Teachings of Islam Page 338

Thanwi’s Plagiarism:

اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانون قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر پلید ہی ہو کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذاؤں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہے۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بد کا اثر بھی بد ہی پڑے گا جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوئی کو بڑھاتا ہے

Ahkam-e-Islam Aql Ki Nazar Mein pages 205-206

English translation is as follows:

Everyone knows that it eats filth and is utterly shameless. Thus the reason for the prohibition of its flesh is obvious, as by the law of nature its flesh would have a foul effect on the body and the soul of one who eats it. As we have already demonstrated food affects a person’s soul and there can be no doubt that the flesh of such a foul animal would also be foul. Even in pre-Islamic times, Greek physicians had opined that the flesh of this animal particularly damages the faculty of modesty and fosters shamelessness

.[The Philosphy and Teachings of Islam , Eng Translation 39-40]

Plagiarism Instance # 2: Barakatud Dua, Pages 7-8

Original:

اگر چہ دنیا کی کوئی خیر و شر مقدر سے خالی نہیں تا ہم قدرت نے اس کے حصول کے لئے ایسے اسباب مقرر کر رکھے ہیں جن کے صحیح اور بے اثر میں کسی خاوند کو کلام نہیں مثلا اگر چہ مقدر پر لحاظ کر کے دوا کا کرنا نہ کرنا در حقیقت ایسا ہی ہے جیسا که دعا یا ترک دعا مگر کیا سید صاحب یہ رائے ظاہر کر سکتے ہیں کہ مثلا علم طب سراسر باطل ہے اور حکیم حقیقی نے دواؤں میں کچھ بھی اثر نہیں رکھا۔

ہے کہ خدا تعالی اس بات پر تو قادر تھا کہ تربد اور سقمونیا اور سنا اور حب الملوک میں تو ایسا قومی اثر رکھے کہ ان کی پوری خوراک کھانے کے ساتھ ہی دست چھوٹ جائیں یا مثلاسم الفار اور بیش اور دوسری بلائل زہروں میں وہ غضب کی تاثیر ڈال دی کہ ان کا کامل قدر شربت چند منٹوں میں ہی اس جہان سے رخصت کر دے لیکن اپنے برگزیدوں کی توجہ اور عقد ہمت اور تضرع کی بھری ہوئی دعاؤں کو فقط مردہ کی طرح رہنے دے جن میں ایک ذرہ بھی اثر نہ ہو؟

اعلی تا شیروں پر ذاتی تجربہ نہیں رکھتے اور ان کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی ایک مدت تک ایک پرانی اور سال خوردہ اور مسلوب القونی دوا کو استعمال کرے اور پھر اس کو بے اثر پاکر اس دوا پر عام علم نکا دے کہ اسمیں کچھ بھی تاثیر نہیں۔

Barakatud Dua  Pages 7-8

Thanwi’s Plagiarism:

 چہ مقدر پر لحاظ کر کے دوا کا کرنا نہ کرنا در حقیقت ایسا ہی ہے جیسا که دعا یا ترک دعا مگر کیا سید صاحب یہ رائے ظاہر کر سکتے ہیں کہ مثلا علم طب سراسر باطل ہے اور حکیم حقیقی نے دواؤں میں کچھ بھی اثر نہیں رکھا۔

ہے کہ خدا تعالی اس بات پر تو قادر تھا کہ تربد اور سقمونیا اور سنا اور حب الملوک میں تو ایسا قومی اثر رکھے کہ ان کی پوری خوراک کھانے کے ساتھ ہی دست چھوٹ جائیں یا مثلاسم الفار اور بیش اور دوسری بلائل زہروں میں وہ غضب کی تاثیر ڈال دی کہ ان کا کامل قدر شربت چند منٹوں میں ہی اس جہان سے رخصت کر دے لیکن اپنے برگزیدوں کی توجہ اور عقد ہمت اور تضرع کی بھری ہوئی دعاؤں کو فقط مردہ کی طرح رہنے دے جن میں ایک ذرہ بھی اثر نہ ہو؟

اعلی تا شیروں پر ذاتی تجربہ نہیں رکھتے اور ان کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی ایک مدت تک ایک پرانی اور سال خوردہ اور مسلوب القونی دوا کو استعمال کرے اور پھر اس کو بے اثر پاکر اس دوا پر عام علم نکا دے کہ اسمیں کچھ بھی تاثیر نہیں۔

Ahkam-e-Islam Aql Ki Nazar Mein page 87

Plagiarism Instance # 3: Arya Dharam Pages 37,38, and 39

Original:

کہ مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضروریہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خود بخو دنکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود بخو د نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑا سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کر اسکتی ہے اور یہ کمی اختیار اس کی فطرتی شتاب کاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے لیکن مرد جیسا کہ اپنے اختیار سے معاہدہ نکاح کا باندھ سکتا ہے ایسا ہی عورت کی طرف سے

شرائط ٹوٹنے کے وقت طلاق دینے میں بھی خود مختار ہے سو یہ قانون فطرتی قانون سے ایسی

(۳۳)

مناسبت اور مطابقت رکھتا ہے گویا کہ اُس کی عکسی تصویر ہے کیونکہ فطرتی قانون نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ ہر ایک معاہدہ شرائط قرار دادہ کے فوت ہونے سے قابل فسخ ہو جاتا ہے اور اگر فریق ثانی فسخ سے مانع ہو تو وہ اس فریق پر ظلم کر رہا ہے جو فقدان شرائط کی وجہ سے فسخ عہد کا حق رکھتا ہے جب ہم سوچیں کہ نکاح کیا چیز ہے تو بجز اس کے اور کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی کہ ایک پاک معاہدہ کی شرائط کے نیچے دو انسانوں کا زندگی بسر کرنا ہے اور جو شخص شرائط شکنی کا مرتکب ہو وہ عدالت کی رو سے معاہدہ کے حقوق سے محروم رہنے کے لائق ہو جاتا ہے اور اسی محرومی کا نام دوسرے لفظوں میں طلاق ہے لہذا طلاق ایک ایسی پوری پوری جدائی ہے جس سے مطلقہ کی حرکات سے شخص طلاق دہندہ پر کوئی بداثر نہیں پہنچتا یا دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک عورت کسی کی منکوحہ ہو کر نکاح کے معاہدہ کو کسی اپنی بدچلنی سے توڑ دے تو وہ اُس عضو کی طرح ہے جو گندہ ہو گیا اور سڑ گیا یا اس دانت کی طرح ہے جس کو کیڑے نے کھا لیا اور وہ اپنے شدید درد سے ہر وقت تمام بدن کو ستاتا اور دکھ دیتا ہے تو اب حقیقت میں وہ دانت دانت نہیں ہے اور نہ وہ متعفن عضو حقیقت میں عضو ہے اور سلامتی اسی میں ہے کہ اُس کو اکھیڑ دیا جائے اور کاٹ دیا جائے اور پھینک دیا جائے یہ سب کا رروائی قانون قدرت کے موافق ہے ۔ عورت کا مرد سے ایسا تعلق نہیں جیسے اپنے ہاتھ اور اپنے پیر کا لیکن تاہم اگر کسی کا ہاتھ یا پیرکسی ایسی آفت میں مبتلا ہو جائے کہ اطباء اور ڈاکٹروں کی رائے اسی پر اتفاق کرے کہ زندگی اس کی کاٹ دینے میں ہے تو بھلا تم میں سے کون ہے کہ ایک جان کے بچانے کے لئے کاٹ دینے پر راضی نہ ہو پس ایسا ہی اگر تیری منکوحہ اپنی بدچلنی اور کسی مہان پاپ سے تیرے پر وبال لا دے تو وہ ایسا عضو ہے کہ بگڑ گیا اور سڑ گیا اور اب وہ تیرا عضو نہیں ہے اس کو جلد کاٹ دے اور

گھر سے باہر پھینک دے ایسا نہ ہو کہ اس کی زہر تیرے سارے بدن میں پہنچ جائے اور تجھے بلاک کرے پھر اگر اس کائے ہوئے اور زہر یلے جسم کوکوئی پرند یا درند کھالے تو تجھے اس سے کیا کام کیونکہ وہ جسم تو اُسی وقت سے تیرا جسم نہیں رہا جبکہ تو نے اُس کو کاٹ کر پھینک دیا

Arya Dharam Pages 37,38, and 39

Thanwi’s Plagiarism:

کہ مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضروریہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خود بخو دنکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود بخو د نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑا سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کر اسکتی ہے اور یہ کمی اختیار اس کی فطرتی شتاب کاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے لیکن مرد جیسا کہ اپنے اختیار سے معاہدہ نکاح کا باندھ سکتا ہے ایسا ہی عورت کی طرف سے

شرائط ٹوٹنے کے وقت طلاق دینے میں بھی خود مختار ہے سو یہ قانون فطرتی قانون سے ایسی

(۳۳)

مناسبت اور مطابقت رکھتا ہے گویا کہ اُس کی عکسی تصویر ہے کیونکہ فطرتی قانون نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ ہر ایک معاہدہ شرائط قرار دادہ کے فوت ہونے سے قابل فسخ ہو جاتا ہے اور اگر فریق ثانی فسخ سے مانع ہو تو وہ اس فریق پر ظلم کر رہا ہے جو فقدان شرائط کی وجہ سے فسخ عہد کا حق رکھتا ہے جب ہم سوچیں کہ نکاح کیا چیز ہے تو بجز اس کے اور کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی کہ ایک پاک معاہدہ کی شرائط کے نیچے دو انسانوں کا زندگی بسر کرنا ہے اور جو شخص شرائط شکنی کا مرتکب ہو وہ عدالت کی رو سے معاہدہ کے حقوق سے محروم رہنے کے لائق ہو جاتا ہے اور اسی محرومی کا نام دوسرے لفظوں میں طلاق ہے لہذا طلاق ایک ایسی پوری پوری جدائی ہے جس سے مطلقہ کی حرکات سے شخص طلاق دہندہ پر کوئی بداثر نہیں پہنچتا یا دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک عورت کسی کی منکوحہ ہو کر نکاح کے معاہدہ کو کسی اپنی بدچلنی سے توڑ دے تو وہ اُس عضو کی طرح ہے جو گندہ ہو گیا اور سڑ گیا یا اس دانت کی طرح ہے جس کو کیڑے نے کھا لیا اور وہ اپنے شدید درد سے ہر وقت تمام بدن کو ستاتا اور دکھ دیتا ہے تو اب حقیقت میں وہ دانت دانت نہیں ہے اور نہ وہ متعفن عضو حقیقت میں عضو ہے اور سلامتی اسی میں ہے کہ اُس کو اکھیڑ دیا جائے اور کاٹ دیا جائے اور پھینک دیا جائے یہ سب کا رروائی قانون قدرت کے موافق ہے ۔ عورت کا مرد سے ایسا تعلق نہیں جیسے اپنے ہاتھ اور اپنے پیر کا لیکن تاہم اگر کسی کا ہاتھ یا پیرکسی ایسی آفت میں مبتلا ہو جائے کہ اطباء اور ڈاکٹروں کی رائے اسی پر اتفاق کرے کہ زندگی اس کی کاٹ دینے میں ہے تو بھلا تم میں سے کون ہے کہ ایک جان کے بچانے کے لئے کاٹ دینے پر راضی نہ ہو پس ایسا ہی اگر تیری منکوحہ اپنی بدچلنی اور کسی مہان پاپ سے تیرے پر وبال لا دے تو وہ ایسا عضو ہے کہ بگڑ گیا اور سڑ گیا اور اب وہ تیرا عضو نہیں ہے اس کو جلد کاٹ دے اور

گھر سے باہر پھینک دے ایسا نہ ہو کہ اس کی زہر تیرے سارے بدن میں پہنچ جائے اور تجھے بلاک کرے پھر اگر اس کائے ہوئے اور زہر یلے جسم کوکوئی پرند یا درند کھالے تو تجھے اس سے کیا کام کیونکہ وہ جسم تو اُسی وقت سے تیرا جسم نہیں رہا جبکہ تو نے اُس کو کاٹ کر پھینک دیا

Ahkam-e-Islam Aqal Ki Nazar Main, Pages 161-162

Plagiarism Instance # 4: Barakatud Dua, Pages 11-12

Original:

یہی حال دواؤں کا بھی ہے ۔ کیا دواؤں نے موت کا دروازہ بند کر دیا ہے؟

یا اُن کا خطا جانا غیر ممکن ہے ؟ مگر کیا با وجود اس بات کے کوئی اُن کی تاثیر سے انکار کر سکتا ہے؟ یہ بیچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہو رہی ہے ۔ مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا ۔ بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں ۔ مثلاً اگر ایک بیمار کی تقدیر نیک ہو تو اسباب علاج پورے طور میسر آ جاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ ان سے نفع اٹھانے کے لئے مستعد ہوتا ہے ۔ تب دوا نشانہ کی طرح جا کر اثر کرتی ہے۔ یہی قاعدہ دعا کا بھی ہے۔ یعنی دعا کے لئے بھی تمام اسباب وشرائط قبولیت اُسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں ارادہ الہی اُس کے قبول کرنے کا ہے

Barakatud Dua, Pages 11-12

Thanwi’s Plagiarism:

یہی حال دواؤں کا بھی ہے ۔ کیا دواؤں نے موت کا دروازہ بند کر دیا ہے

یا اُن کا خطا جانا غیر ممکن ہے ؟ مگر کیا با وجود اس بات کے کوئی اُن کی تاثیر سے انکار کر سکتا ہے؟ یہ بیچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہو رہی ہے ۔ مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا ۔ بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں ۔ مثلاً اگر ایک بیمار کی تقدیر نیک ہو تو اسباب علاج پورے طور میسر آ جاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ ان سے نفع اٹھانے کے لئے مستعد ہوتا ہے ۔ تب دوا نشانہ کی طرح جا کر اثر کرتی ہے۔ یہی قاعدہ دعا کا بھی ہے۔ یعنی دعا کے لئے بھی تمام اسباب وشرائط قبولیت اُسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں ارادہ الہی اُس کے قبول کرنے کا ہے

Ahkam-e-Islam Aqal Ki Nazar Main, Page 88

English Translation

Have medicines closed the door of death, or is it impossible for them to fail in their purpose? And yet can anyone deny their effect? It is true that Predestination comprehends everything, but it has neither rendered the sciences useless nor has it shown the means to be unreliable. If you reflect deeply enough, you will see that the physical and spiritual means are not outside the sphere of Predestination. For instance, if a sick person’s destiny is favourable, all the means for the proper remedy become available and his physical condition happens to be such that it is ready to derive full benefit from the remedy, and the medicine also finds its mark accurately. The same principle applies to prayer. All the means and conditions for the acceptance of a prayer only become available when God wills to accept it.

[Barkatud Dua – English translation : The Blessings of Prayer page 18]

Plagiarism Instance # 5: Arya Dharam Pages 22-23

Original:

[yellow highlight]

پر ہیز گار رہنے کی غرض سے نکاح کرو اور اولاد صالح طلب کرنے کے لئے دعا کرو جیسا کہ وہ اپنی پاک کلام میں فرماتا ب مُحْصِينَ غَيْرَ مُسْفِحِينَ، الجز نمبر ۵ ۔ یعنی چاہئے کہ تمہارا نکاح اس نیت سے ہو کہ تا تم تقویٰ اور پرہیز گاری کے قلعہ میں داخل ہو جاؤ ۔ ایسا نہ ہو کہ حیوانات کی طرح محض نطفہ نکالنا ہی تمہارا مطلب ہو ۔

[blue highlight]

اور پھر ایک اور جگہ فرماتا ہے وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يَغْنِيَهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ ” الجز و نمبر ۱۸ سورۃ النور ۔ یعنی جو لوگ نکاح کی طاقت نہ رکھیں جو پرہیز گار رہنے کا اصل ذریعہ ہے تو اُن کو چاہئے کہ اور تدبیروں سے طلب عفت کریں چنانچہ بخاری اور مسلم کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو نکاح کرنے پر قادر نہ ہو اُس کے لئے پر ہیز گار رہنے کے لئے یہ تدبیر ہے کہ وہ روزے رکھا کرے اور حدیث یہ ہے یا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فانه اغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فانه له وجاء صحیح مسلم و بخاری یعنے اے جوانوں کے گروہ جو کوئی تم میں سے نکاح کی قدرت رکھتا ہو تو چاہیے۔ کہ وہ نکاح کرے کیونکہ نکاح آنکھوں کو خوب نیچا کر دیتا ہے اور شرم کے اعضاء کو زنا وغیرہ سے بچاتا ہے ورنہ روزہ رکھو کہ وہ خضی کر دیتا ہے۔

Arya Dharam Pages 22-23

Thanwi’s Plagiarism:

[yellow highlight]

پر ہیز گار رہنے کی غرض سے نکاح کرو اور اولاد صالح طلب کرنے کے لئے دعا کرو جیسا کہ وہ اپنی پاک کلام میں فرماتا ب مُحْصِينَ غَيْرَ مُسْفِحِينَ، الجز نمبر ۵ ۔ یعنی چاہئے کہ تمہارا نکاح اس نیت سے ہو کہ تا تم تقویٰ اور پرہیز گاری کے قلعہ میں داخل ہو جاؤ ۔ ایسا نہ ہو کہ حیوانات کی طرح محض نطفہ نکالنا ہی تمہارا مطلب ہو ۔

[blue highlight]

اور پھر ایک اور جگہ فرماتا ہے وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يَغْنِيَهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ ” الجز و نمبر ۱۸ سورۃ النور ۔ یعنی جو لوگ نکاح کی طاقت نہ رکھیں جو پرہیز گار رہنے کا اصل ذریعہ ہے تو اُن کو چاہئے کہ اور تدبیروں سے طلب عفت کریں چنانچہ بخاری اور مسلم کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو نکاح کرنے پر قادر نہ ہو اُس کے لئے پر ہیز گار رہنے کے لئے یہ تدبیر ہے کہ وہ روزے رکھا کرے اور حدیث یہ ہے یا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فانه اغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فانه له وجاء صحیح مسلم و بخاری یعنے اے جوانوں کے گروہ جو کوئی تم میں سے نکاح کی قدرت رکھتا ہو تو چاہیے۔ کہ وہ نکاح کرے کیونکہ نکاح آنکھوں کو خوب نیچا کر دیتا ہے اور شرم کے اعضاء کو زنا وغیرہ سے بچاتا ہے ورنہ روزہ رکھو کہ وہ خضی کر دیتا ہے۔

Ahkam-e-Islam Aqal Ki Nazar Main, Pages 140-141

Plagiarism Instance # 6: Kishti-e-Nuh, Pages 69-70

Original:

[yellow highlight]

کے لئے اُن کا وارد ہونا ضروری ہے۔ (۱) پہلے جب کہ تم مطلع کئے جاتے ہو کہ تم پر ایک بلا آنے والی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تسلی اور خوشحالی میں خلل ڈالا سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے۔

[blue highlight]

(۲) دوسرا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے جب کہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کئے جاتے ہو مثلاً

جب کہ تم بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے سو یہ حالت تمہاری اُس

وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اُس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے۔ اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقرر ہوئی۔

(۳) تیسر اتغیر تم پر اس وقت آتا ہے جو اس بلا سے رہائی پانے کی بنگلی امید منقطع ہو جاتی

ہے مثلاً جیسے تمہارے نام فرد قرار داد جرم لکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ تمہاری ہلاکت کے لئے گزر جاتے ہیں یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے تئیں ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو ۔ سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امیدیں دن کی روشنی کی ختم ہو جاتی ہیں اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہے۔

[red highlight]

(۴) چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بلا تم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اس کی سخت تاریخی تم پر احاطہ کر لیتی ہے مثلاً جب کہ فرد قرار داد جرم اور شہادتوں کے بعد ھم سزا تم کو سنایا جاتا

ہے اور قید کے لئے ایک پولس مین کے تم حوالہ کئے جاتے ہوسو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیرا پڑ جاتا ہے اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز

عشاء مقرر ہے۔

[orange highlight]

(۵) پھر جب کہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اس تاریخی سے نجات دیتا ہے مثلا جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے سو اس روحانی حالت کے

مقابل پر نماز فجر مقرر ہے اور خدا نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچ نمازیں تمہارے لئے مقرر کیں اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کے لئے ہین

Kishti-e-Nuh, Pages 69-70

Thanwi’s Plagiarism:

[yellow highlight]

کے لئے اُن کا وارد ہونا ضروری ہے۔ (۱) پہلے جب کہ تم مطلع کئے جاتے ہو کہ تم پر ایک بلا آنے والی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تسلی اور خوشحالی میں خلل ڈالا سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے۔

[blue highlight]

(۲) دوسرا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے جب کہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کئے جاتے ہو مثلاً

جب کہ تم بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے سو یہ حالت تمہاری اُس

وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اُس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے۔ اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقرر ہوئی۔

(۳) تیسر اتغیر تم پر اس وقت آتا ہے جو اس بلا سے رہائی پانے کی بنگلی امید منقطع ہو جاتی

ہے مثلاً جیسے تمہارے نام فرد قرار داد جرم لکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ تمہاری ہلاکت کے لئے گزر جاتے ہیں یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے تئیں ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو ۔ سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امیدیں دن کی روشنی کی ختم ہو جاتی ہیں اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہے۔

[red highlight]

(۴) چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بلا تم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اس کی سخت تاریخی تم پر احاطہ کر لیتی ہے مثلاً جب کہ فرد قرار داد جرم اور شہادتوں کے بعد ھم سزا تم کو سنایا جاتا

ہے اور قید کے لئے ایک پولس مین کے تم حوالہ کئے جاتے ہوسو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیرا پڑ جاتا ہے اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز

عشاء مقرر ہے۔

[orange highlight]

(۵) پھر جب کہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اس تاریخی سے نجات دیتا ہے مثلا جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے سو اس روحانی حالت کے

مقابل پر نماز فجر مقرر ہے اور خدا نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچ نمازیں تمہارے لئے مقرر کیں اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کے لئے ہین

Ahkam-e-Islam Aqal Ki Nazar Main, Pages 50, 51, and 52

Plagiarism Instance # 7: Naseem e Dawat Pages 437-438

Original:

Naseem e Dawat Pages 436-438

Thanwi’s Plagiarism:

Ahkam-e-Islam Aqal Ki Nazar Main, Pages 224-226

Plagiarism Instance #8 – Al-Hakam January 23, 1899 pages 2-3

Original of Masih Maud(AS)

Al-Hakam January 23, 1899 pages 2-3

Ashraf Ali Thanwi took this passage and stuck into his book, gave it the title of ‘Qaboor se Taluq-e-Arwaeh’

Ahkam-e-Islam Aql ki Nazar mein pages 262-265

In the above highlights the red underline represents words that Masih Maud used such as Sadaqat and Thanwi just changed the meaning to a synonym such as Haqiaq, Haqeeqat, Amr Waqai. Another example is when Masih Maud(AS) says ‘Tarah Tarah’ in one line and Thanwi changes it to Muktalif. So what happens is after pages and pages of plagirism is might change one word to a synonym. This is an abhorent and emptyheaded way to cover up his plagirism.

Plagiarism Instance #9 – Islami Usool ki Philopshy

Islami Usool ki Philopshy page 47

Thanwi’s plagiarism:

There can be no doubt that unrestrained looks become a source of danger. If we place soft bread before a hungry dog, it would be vain to hope that the dog should pay no attention to it. Thus God Almighty desired that human faculties should not be provided with any occasion for secret functioning and should not be confronted with anything that might incite dangerous tendencies.

The Philosophy of the Teachings of Islam page 48

Ashraf Ali Thanwi’s Plagiarism of Hakim-ul-Ummah Maulvi Nuruddin Bhairawi RA

We have written a full article on this. You can read it here.

Ashraf Ali Thanwi’s Plagiarism of Maulvi Muhammad Ali(RA)’s statement from Asrar-e-Shariaat

As mentioned above Ahkam-e-Islam Aql ki Nazar Mein is mostly a plagiarism of Asrar-e-Shariat. One such case is where Ashraf Ali Thanwi plagiarized from Asrar-e-Shariat Volume 2 specifically in the Kitab al Raq titled ‘Islami Ghulami ki Falsafee’

Asrar-e-Shariat Volume 2 Baab Kitab ar-raq page 265

Ahkam-e-Islam Aql Mein Nazar Main pg 187-188

Here you can see side by side texs, of how the passages are exactly the same! This book is a compilation of plagiarism in Urdu Literature and they pointed out how Ashraf Ali Thanwi word for word copied from Asrar-e-Shariat

l the basis of the ahkam nor are they exhaustive [of all benefits]…

(Ahkam-i-Islam Aqal ki Nazar Main, pp14-15)

Refutation of Weak Deobandi Responses

Claim 1: Thanwi admitted to his plagiarism in his book

Yes, you heard this right. Deobandis seriously use this as proof. Him acknowledging that he took from a scholar but not mentioning the name of the scholar or the book or what pages he took, means he did not do plagiarism. This is of course, half-witted. Hinting Towards Plagiarism confirms the Plagiarism, it doesn’t disprove it.

Just now I saw a book [on the topic of the rational benefits of religious ahkam (injunctions)] written by someone proficient with the pen but because of shortcomings in knowledge and deeds, he filled it with all kinds of reliable and unreliable matters…It occurred to me that seeing such books is harmful to the public…

Hence, I felt the need to prepare a separate collection of these topics, free of these wrongs, for such people [who have an interest in this subject], so that if someone has such a passion they can read it. Even if it doesn’t bring them benefit, it will stop them from the harms [of books like the one mentioned above].

However, a person who will lose the awe of divine rules from learning their rational benefits; or will start to think these rational benefits to be the pivot of these rules such that they believe the rules to be negated when the benefits are missing; or they imagine the benefits to be objectives in themselves and assign other methods to achieve them instead of establishing the [religious] ahkam…I don’t grant permission for people of such outlooks to read it.

Anyhow, this is the collection that is in your hands. The lowly one [i.e. Mawlana Ashraf ‘Ali Thanawi], proceeding from utmost impartiality, has selected in this [book] many discussions from the abovementioned book that have the quality of being sound. Some rational benefits of the famous ahkam (religious injunctions) will be mentioned in this [book] that align with the principles of Shari‘ah and are easy to understand. However, neither are all these rational benefits explicitly stated [in scriptural sources] nor are they al

Claim 2: Mirza Ghulam Ahmad took from another scholar?

1) Summary of this article:https://barelwism.wordpress.com/2023/09/07/barelwi-alleges-mawlana-ashraf-ali-thanawi-plagiarised-from-mirza-ghulam-ahmad-qadiyani/
Thanwi states he is extracting from another book, therefore it isn’t plagiarism
Thanwi is copied another book (Asrar-i-Shari’at) not by Ghulam Ahmad
Mirza Ghulam Ahmad Qadiyani copied from Asrar-i-Shari’at


2) Refutation:

It’s plagiarism. All he did was hint towards his plagiarism which isn’t the same as citing your sources.
Asrar-i-Shari’at cites the Promised Messiah AS and other Ahmadi scholars.
Asrar-e-Shariat was written after Hazrat Ahmad death so how could he copy it

Ahkam-e-Shariat by Maulvi Fazal Khan Changhawi was written after the Death of the Promised Messiah AS

Maulvi Fazal Khan Changawi published his book in 1910(1328 AH), and he himself states it took him 6 months to write it, which means the earliest date possible is 1909. Mirza Ghulam Ahmad AS had passed away in May, 1908

Maulvi Fazal Khan Changhawi was Ahmadi himself

Secondly, some Deobandis claim that Changwi was not an Ahmadi when he wrote Asrar-e-Shariat. However, he compiled Fatawah Ahmadiyya, which contains rulings of the Promised Messiah AS and Maulana Nuruddin RA.

Deobandis in their scramble for an answer contradict each other

Difaee’ Ahlus Sunnat – A Deobandi Account on Twitter with 1.5k wrote:

If anyone of you thinks the Maulvi Fazl Khan was a qadiani just read the first ten page of the book. You’ll know the qadiani deception again.

https://web.archive.org/save/https://twitter.com/Ahnaaf_Services/status/1684606891606069250

Note: Their scan of Asrar-e-Shariat does not prove that he was not an Ahmadi.

While Barelwism.org writes:

The author, Muhammad Fazal Khan, initially belonged to the Ahl-i-Hadith, then became a follower of Mirza Ghulam Ahmad Qadiyani and in later life, left Qadiyanism.

https://barelwism.wordpress.com/2023/09/07/barelwi-alleges-mawlana-ashraf-ali-thanawi-plagiarised-from-mirza-ghulam-ahmad-qadiyani/

This shows how Deobandis will say anything and even lie and speak out both sides of its mouth in order to lie

Barelwism.org Article is Fundamentally Wrong as it refutes itself


3) Just an additional point to solidify how low IQ the article is. The article mentioned how Thanwi was extracting from Asrar-i-Shari’at even in the case where he copied from Nur al-Din. But the scan the article posted again shows Fazal Changwi citing Nur al-Din as it clearly says نور. Fazal Khan Changhawi is quoting Noorudeen and puts (NOOR).

Quick Recap of Dates:

1904 – Eid Khutba of Nur al-Din

1910 – Fazl Khan Changhawi quotes Nur-ad-Deen RA with (NOOR) citation

1915 – Thanwi Plagiarizes and cuts out Noor citation

Their article refutes itself as they show the scan of 1910 Ahkam e Shariat with Noor Citation and the Thanwi passage without Noor Citation (HIGHLIGHTED IN YELLOW)

The following Images are from Barelvism.Org:

Effect of our Article and Twitter Thread

One of the major effects of our article and twitter thread is that it went viral on twitter and we got to see the stages of Deobandi Grief. We are building off of research that Maulana Dost Shahid RH conducted on this topic.

1st Stage of Grief of Deobandis

Deobandi Cope 1: The scans you have shown of Masih Maud AS books are computerized not the original: https://twitter.com/ahnaaf_services/status/163814119452508160

Ahmadi Reply: Ahmadi Muslims responded With Original Scans: https://twitter.com/discordislam/status/1638540918042300424

Cope 2: Pretend that Plagiarism did not happen to deceive Arabs and Non Urdu Speakers

True Islam Discord Team showed Non Ahmadi Sunni Scholars admitting that Thanwi plagiarized:

a)

For example, the famous “Sunni” scholar, Maulana Irshad ul Haq Asari, pointed out that Thanwi’s plagiarism from The Philosophy of the Teachings of Islam is exactly the same. He asks his readers: “Is copying word for word and veiling the book and author robbery?

b)

Additionally, Mahinama Na’imat Lahore, which is intimately connected to the Deoband movement has written a whole article on Thanwi’s copying of Mirza Ghulam Ahmad AS. It also clarifies that the original editions of His AS’s work are found in libraries

c)

Similarly, in another publication called ‘Mushaheer Ilm o Adab ke Sarqon ka Muhasaba’ shows that Thanwi plagiarized from a companion of the Promised Messiah, Maulvi Muhammad Ali, by putting quotes side by side

d)

“Sunni” Mua’alim, Abu Nu’man Raza, compiles instances of Thanwi’s plagiarism of Mirza Ghulam Ahmad AS and conveniently puts the computerized Urdu Text, side by side, making it easy to read. You can read the article at this link: https://t.co/XDKxUq5rgs /15

Deobandi Cope 3: It is plagiarism but other scholars plagiarized too so it’s ok

Ehm…Muslim scholars literally copied Philosophy books by Kuffar, so yes no problem. But we don’t believe he copied it from him, especially when it is common argumentation/knowledge.

@as_sangruri @BaddoMalhwee It’s the same as a Mujassim saying stuff that we agree with. It doesn’t mean they have the same Aqaid, there are things we agree with there are things we disagree with. 😂 Relocate your brain please

Yes we’ve done so with Muqatil bin Sulaymān ans bis Tafsir who is a known Mujassim…you aren’t making any good points. 😂😂 Likewise we utilise even contemporaries arguments word for word against Kuffar.

Commentary: This one speaks for itself. He acknowledges that the words are 1:1 in many instances, tries to drag other scholar copying word for word to defend Thanwi, and tells us to wait for response